بے خبری کے پار کا موسم
ارشد تم کو یاد تو ہو گا
پچھلے بدھ جو چلتے چلتے
اک آوارہ شام میں ہم نے
بھولی بسری یادوں کی اک موٹی البم کھول کے اس میں
لانبے بال اور سانولے رنگ کی اک لڑکی پر
سیدھے ہاتھ کی انگلی رکھ کر
خوشبو جیسی باتوں کو عنوان کیا تھا!
جس کے نرم و نازک گال کے ڈمپل کی تم قسمیں کھایا کرتے تھے
جس کی سانولی رنگت پر میں نظمیں لکھا کرتا تھا
ہم نے اس آوارہ شام میں
کتنے گھنٹوں اس لڑکی کی باتیں کی تھیں
اس کے ہاتھوں، ہونٹوں، آنکھوں، گالوں کی تعریفیں کی تھیں….
تم کہتے تھے”وہ ہنستی تو دن سا چڑھتا جاتا تھا”
میں کہتا تھا”وہ چلتی تو وقت بھی تھم سا جاتا تھا”
تم کہتے تھے
گر وہ مجھ سے سات سمندر پار کسی”
بے نام جزیرے پر کھلتے پھولوں کا کہتی
"میں لا دیتا
میں کہتا تھا،
گر "وہ مجھ سے دور شفق میں بننے والی
ایک کرن کی خواہش کرتی
"میں لا دیتا
تم کہتے تھے "میں تو اس کی
"ایک تمنا کی خاطر بھی مر سکتا ہوں
میں کہتا تھا "میں تو اپنے لاکھوں جیون
اس کے صرف تبسم پر ہی دے سکتا ہوں…. "
ہم دونوں نے رات گئے تک
تاریکی کے کاغذ پر،
ایسے، ویسے جانے کتنے دعوے لکھے
اس کی یاد کی اوڑھنی اوڑھے
جانے کتنے وعدے لکھے!
پیارے ارشد،
کل کالج کے ایک پرانے دوست نے مجھ کو بتلایا ہے
کچھ دن گزرے، سانولے رنگ کی اس لڑکی نے
ایک ذرا سی بات کی ضد میں
آتما ہتیا کر لی ہے!
روش ندیم
رائے دیجیے