غزل
آخری رابطہ بھی یاد نہ تھا
وہ ملا تو گلہ بھی یاد نہ تھا
رات اتری ہوئی تھی صحرا میں
اور ہمیں راستہ بھی یاد نہ تھا
ہر کوئی تھا بتوں سے بھی نالاں
اور کسی کو خدا بھی یاد نہ تھا
جو مجھے گھر سے ڈھونڈنے نکلے
ان کو میرا پتہ بھی یاد نہ تھا
وہ بھلا عرضِ حال کیا کرتے
جن کو اپنا کہا بھی یاد نہ تھا
Facebook Comments
رائے دیجیے