غزل
خدا جب تک نہ چاہے آدمی سے کچھ نہیں ہوتا
مجھے معلوم ہے میری خوشی سے کچھ نہیں ہوتا
محبت جذبہ ایثار سے پروان چڑھتی ہے
خلوصِ دل نہ ہو تو دوستی سے کچھ نہیں ہوتا
تعجب ہے ترے بندے ترا انکار کرتے ہیں
یہ کہتے ہیں کہ تیری بندگی سے کچھ نہیں ہوتا
یہاں تو دار پر سب کلمہ توحید پڑھتے ہیں
طریقِ عشق میں کم ہمتی سے کچھ نہیں ہوتا
غرض تیرے سوا ہر ایک کو مجبور پاتا ہوں
بھروسہ جس پہ کرتا ہوں اسی سے کچھ نہیں ہوتا
خود اپنے حال سے الجھے ہوئے ہیں تیرے دیوانے
ہنسے جائے، زمانے کی ہنسی سے کچھ نہیں ہوتا
Facebook Comments
رائے دیجیے