غزل
سر پر تھی کڑی دھوپ بس اتنا ہی نہیں تھا
اس شہر کے پیڑوں میں تو سایا ہی نہیں تھا
پانی میں ذرا دیر کو ہلچل تو ہوئی تھی
پھر یوں تھا کہ جیسے کوئی ڈوبا ہی نہیں تھا
لکھے تھے سفر پاؤں میں کس طرح ٹھہرتے
اور یہ بھی کہ تم نے تو پکارا ہی نہیں تھا
اپنی ہی نگاہوں پہ بھروسہ نہ رہے گا
تم اتنا بدل جاؤ گے سوچا ہی نہیں تھا
کندہ تھے مرے ذہن میں کیوں اس کے خدوخال
چہرہ جو مری آنکھ دیکھا ہی نہیں تھا
Facebook Comments
رائے دیجیے